news
English

پی ایس ایل، ’’اوپر‘‘ سے دباؤ پر فیصلے تبدیل ہوتے رہے

انھوں نے انکشاف کیا کہ پی ایس ایل 6 کے دوران بائیو ببل کی خلاف ورزیوں سے متعلق ٹیکنیکل کمیٹی کے فیصلے پر عمل درآمد اعلی حکام کی مداخلت پر روکا گیا

پی ایس ایل، ’’اوپر‘‘ سے دباؤ پر فیصلے تبدیل ہوتے رہے فوٹو: پی سی بی

ڈاکٹر سہیل سلیم نے انکشاف کیا ہے کہ پی ایس ایل 6میں ’’اوپر‘‘ سے دباؤ پر فیصلے تبدیل ہوئے۔

پاکستان کرکٹ کی سب سے بڑی ویب سائٹ www.cricketpakistan.com.pkکے پروگرام ’’کرکٹ کارنر ود سلیم خالق‘‘ میں گفتگو کرتے ہوئے ڈاکٹر سہیل سلیم نے کہا کہ کورونا وبا کے دوران انگلینڈ سمیت مختلف ملکوں میں ایس اوپیز کی تیاری اور عمل درآمد کیلیے 15سے 20تک ادارے مل کر کام کررہے تھے، مجھے مقامی اداروں کی طرف سے کوئی تعاون حاصل نہیں تھا لیکن پھر بھی ملک میں کرکٹ اور کرکٹرز کی بہتری کے لیے دن رات کام کرکے پروٹوکول ڈیزائن کیے،اس ضمن میں جو بہترین کوشش کرسکتا تھا وہ کی،کوئی کسر نہیں چھوڑی مگر آپ کچھ بھی کرلیں وائرس پر مکمل کنٹرول کی کوئی ضمانت نہیں دی جاسکتی۔

انھوں نے انکشاف کیا کہ پی ایس ایل 6 کے دوران بائیو ببل کی خلاف ورزیوں سے متعلق ٹیکنیکل کمیٹی کے فیصلے پر عمل درآمد اعلی حکام کی مداخلت پر روکا گیا، ایک فرنچائز مالک کی جانب سے کھلاڑیوں سے ملاقات میں ہونے والی پروٹوکولز کی خلاف ورزی پر رد عمل کے سوال پر انھوں نے کہا کہ بالکل میں نے غصے کا اظہار کیا تھا بطور ٹیکنیکل کمیٹی رکن میری رائے تھی کہ قانون سے کوئی بالاتر نہیں، کسی سے کوئی ذاتی عداوت نہیں مگر  میں رعایت برتنے کے حق میں نہیں تھا، کمیٹی کے دیگر تینوں ارکان نے بھی ناں کردی تھی لیکن بعد ازاں ہمارا فیصلہ تبدیل کردیا گیا، اعلیٰ حکام میں سے کسی کے کہنے پر ایسا کیا گیا، انھوں نے مالی اہمیت کو پیش نظر رکھا۔

ڈاکٹر سہیل سلیم نے کہا کہ پی سی بی نے مجھے کوئی ’’چھوٹا‘‘ نہیں رکھا ہوا تھا بلکہ میں ڈائریکٹر تھا، ہر شعبے میں جاکر خود تو ایس اوپیز پر عمل درآمد نہیں کراسکتا تھا، ایسا دوسروں کو کرانا تھا لیکن وہ ٹکٹوں میں زیادہ مصروف تھے، پی ایس ایل کے دوران کسی کی فیملی آئی، سالگرہ کی پارٹیز میں میں لوگوں کو بلاتے رہے،ایک سے دوسرے فلور پر آنا جانا ہوا، ایس اوپیز پر عمل درآمد سب کی مشترکہ ذمہ داری تھی لیکن کچھ لوگوں کو آخر میں یہ بات سمجھ آئی،بھارتی بورڈ نے دنیا کی مہنگی ترین کمپنی کی خدمات حاصل کیں، اس کے باوجود وہاں کیسز سامنا آئے، ہم حالات کو نہیں دیکھ رہے تھے بس ایک فکر تھی کی کرکٹ چیلنجز پورے کرنا ہیں۔

ایک سوال پر ڈاکٹر سہیل سلیم نے واضح کیا کہ میں نے استعفیٰ دیا نہیں بلکہ لیا گیا ہے۔ درحقیقت مجھ سے کہا گیا تھا کہ آپ کے پاس 2 راستے ہیں، استعفیٰ دیں یا ہم  برطرف کردیں گے، میں 20 سال کی ملازم کے بعد برخاست نہیں ہونا چاہتا تھا، لہذا اپنا استعفیٰ جمع کرادیا، اس میں یہ لکھا بھی ہے کہ آپ کی خواہش پر مستعفی ہو رہا ہوں،میں نہیں جانتا کہ مجھ پر کیا الزامات ہیں۔

انھوں نے کہا کہ میں چیف ایگزیکٹیو وسیم خان یا پی سی بی کے کسی دوسرے عہدیدار کو مورد الزام نہیں ٹھہراؤں گا، ان کو میراکام پسند نہیں تھا،تاثر یہی دیا گیا کہ پی ایس ایل کے التوا میں سب سے کمزور کڑی میں ہی تھا، سب بھول چکے تھے کہ میں اس سے قبل مشکل ترین حالات میں 6سیریز کرا چکا تھا،مسلسل کرکٹ چل رہی تھی اور ڈاکٹر سہیل سلیم اکیلا ہی دن رات کام کررہا تھا،میں نے استعفے کے وقت بھی واویلا نہیں کیا کیونکہ صرف بورڈ نہیں بلکہ ملک کیلیے کام کررہا تھا لیکن اگر بورڈ والے اس بات کا انتظار کررہے تھے کہ میرا پاؤں پھسلے تو ان کیلیے گڈلک، میں ارد گرد دیکھ رہا تھا کہ اگر مجھ سے کوئی چھوٹی سے غلطی بھی ہوئی تو بدنام کرکے ہٹا دیا جائے گا۔