محسن نقوی کی بطور وزیر داخلہ تقرری کے بارے میں خدشات کا اظہار کرتے ہوئے آئی سی سی کو تجویز کیا گیا کہ آئی سی سی اسے کرکٹ کے معاملات میں سیاسی مداخلت سمجھے اور پاکستان کے خلاف کارروائی کرے۔
آئی سی سی کی جانب سے محسن نقوی کے پی سی بی اورحکومت میں دوہرے کردارپرتحفظات کے حوالے سے وضاحت سامنے آگئی۔
محسن نقوی کی بطور وزیر داخلہ تقرری کے بارے میں خدشات کا اظہار کرتے ہوئے آئی سی سی کو تجویز کیا گیا کہ آئی سی سی اسے کرکٹ کے معاملات میں سیاسی مداخلت سمجھے اور پاکستان کے خلاف کارروائی کرے۔
دوسری جانب یہ سوال اپنی جگہ موجود ہے کہ محسن نقوی دو کشتیوں کی آسانی سے سواری کر سکیں گے یا نہیں جب کہ چیئرمین پی سی بی کے وزیر داخلہ مقرر ہونے کو آئی سی سی واضح طور پر سیاسی مداخلت نہیں سمجھتی۔
محسن نقوی 6 فروری کو 3 برس کے لیے چیئرمین پاکستان کرکٹ بورڈ منتخب ہوئے، اس وقت وہ نگراں وزیر اعلیٰ پنجاب بھی تھے، حال ہی میں انھیں وفاقی وزیر داخلہ بھی مقرر کر دیا گیا ہے، پی سی بی کے سربراہ کی پوسٹ اعزازی ہے البتہ مراعات بے شمار ہوتی ہیں۔
محسن نقوی نے گزشتہ روز سوشل میڈیا پر یہ اعلان بھی کیا کہ وہ بطور وزیر داخلہ کوئی تنخواہ نہیں لیں گے، ان کے وزیر داخلہ بننے پر یہ خدشات ظاہر کیے جا رہے ہیں کہ انٹرنیشنل کرکٹ کونسل اسے کھیلوں میں سیاسی مداخلت سمجھتے ہوئے پاکستان کیخلاف کوئی ایکشن لے سکتی ہے، البتہ آئی سی سی کو محسن نقوی کے دو عہدوں پر رہنے سے کوئی اعتراض نہیں ہے،وہ اسے سیاسی مداخلت نہیں سمجھتی۔
انٹرنیشنل کرکٹ کونسل کے ذرائع کا کہنا ہے کہ ماضی میں بھارت سمیت دیگر ممالک میں بھی سیاسی شخصیات کرکٹ بورڈ کی ٹاپ پوسٹ سنبھال چکی ہیں، بنگلہ دیش کرکٹ بورڈ کے صدر نظم الحسن ان دنوں یوتھ اینڈ اسپورٹس منسٹر بھی ہیں، کسی ملکی بورڈ میں سیاسی مداخلت کا الزام کوئی بھی اٹھ کر نہیں لگا سکتا، اس کا سابق یا موجودہ بورڈ ممبر ہونا ضروری ہوتا ہے، اس شکایت کا آئی سی سی جائزہ لیتی ہے، پھر فیصلہ کیا جاتا ہے کہ رکن ملک کیخلاف کوئی ایکشن لیا جائے یا نہیں، پاکستان کے حوالے سے اس وقت ایسی کوئی تشویش نہیں ہے۔
یاد رہے کہ محسن نقوی کی منسٹری میں مصروفیات بڑھنے کی وجہ سے بورڈ میں طاقتور سی ای او کو لانے کی اطلاعات میں پھر تیزی آ گئی ہے،اس کے لیے آئین تبدیل کرنا پڑے گا، بصورت دیگر سلمان نصیر کو کوئی اور عہدہ سونپ کر کسی اور شخصیت کو سی او او بنایا جائے گا۔