پی ایس ایل میں کرکٹ کو اہمیت دی جاتی ہے،کوئٹہ گلیڈی ایٹرز کی فتوحات میں کردار ادا کرنا چاہتا ہوں
آئی پی ایل کے ’’انڈین پیسہ لیگ‘‘ ہونے کے تاثر پرڈیل اسٹین نے مہر تصدیق ثبت کردی، کوئٹہ گلیڈی ایٹرز کے جنوبی افریقی پیسر کا کہنا ہے کہ بھارتی ایونٹ میں بڑے اسکواڈ اور بڑے نام موجود ہیں، پیسے کی بات زیادہ کرکٹ نظر انداز ہوتی ہے،پی ایس ایل میں کرکٹ کو اہمیت دی جاتی ہے، میں وکٹوں کی تعداد سے زیادہ میچز جتوانے میں کردار ادا کرنا زیادہ اہم سمجھتا ہوں، گرس گیل کے متبادل پلیئرز کی صلاحیتوں میں بھی کسی شک و شبہے کی گنجائش نہیں۔
تفصیلات کے مطابق ویب سائٹwww.cricketpakistan.com.pkکے پروگرام ’’کرکٹ کارنر ود سلیم خالق‘‘ میں گفتگوکرتے ہوئے ڈیل اسٹین نے کہاکہ میں آئی پی ایل سے رخصت چاہتا تھااسی لیے گذشتہ سیزن میں شرکت نہ کرنے کا فیصلہ کیا،میرے خیال میں دیگر لیگز میں کھیل کر آپ کو بطور پلیئر بہتر صلہ اور اطمینان ملتا ہے،آئی پی ایل میں بڑے اسکواڈز اور بڑے نام ہوتے ہیں، سب سے زیادہ زور اس بات پر ہوتا ہے کہ کون کتنا پیسہ کما رہا ہے،اس صورتحال میں لوگ کرکٹ کو بھول جاتے ہیں،پی ایس ایل اورلنکن لیگ میں کرکٹ کو اہمیت دی جاتی ہے۔
مجھے پاکستان آئے چند روز ہی ہوئے ہیں، کمرے کے اندر اور باہر لوگ صرف کرکٹ کی بات کرتے ہیں،وہ جاننا چاہتے ہیں کہ میں کہاں اور کیسا کھیلا،آئی پی ایل میں جاؤں تو وہاں کرکٹ کو بھلا کر پوچھا جاتا ہے کہ اس ایونٹ سے کتنی دولت کماؤگے،تلخ بات دیانتداری سے کہہ رہا ہوں کہ میں اس رویہ سے دور رہتے ہوئے اچھی کرکٹ، اچھی ٹیموں اور ٹورنامنٹس پر توجہ دینا چاہتا ہوں،میرے نزدیک یہ چیز قابل قدر ہے۔ڈیل اسٹین نے کہا کہ میں بہتر سے بہتر کارکردگی پیش کرتے ہوئے کوئٹہ گلیڈی ایٹرز کی فتوحات میں اہم کردار ادا کرنا چاہتا ہوں۔
گذشتہ سال اسلام آباد یونائیٹڈ کی جانب سے زیادہ بہتر کارکردگی نہ پیش کر پانے کے سوال پر انھوں نے کہا کہ میں مختصر وقت کیلیے آیا تھا،میں وکٹوں کی تعداد سے زیادہ میچز جتوانے میں کردار ادا کرنا زیادہ اہم سمجھتا ہوں،ہمیشہ اپنی کارکردگی میں بہتری لانے کی کوشش جاری رکھتا ہوں مگر کرکٹ میں کسی چیز کی ضمانت نہیں دی جا سکتی، ہم صرف اپنی بہترین کوشش اور اچھے نتائج کی امید کر سکتے ہیں۔پیسر نے کہا کہ پی ایس ایل 6 میں ہدف کا تعاقب کرنے والی ٹیموں کی مسلسل کامیابیاں ثابت کرتی ہیں کہ کراچی کی پچز بیٹنگ کے لیے سازگار ہیں، یہ دوسری اننگز میں بھی توڑ پھوڑ کا شکار نہیں ہوتیں، ٹی ٹوئنٹی کرکٹ میں عام طور پر ایسی ہی کنڈیشنز ہوتی ہیں،عام طور پر بھی میرا ایشیا میں یہی تجربہ ہے کہ یہاں پیسرز کو زیادہ مدد نہیں ملتی، آپ کو بڑی ہوشیاری سے پلان کے مطابق بولنگ کرتے ہوئے خوش قسمتی کی بھی ضرورت ہوتی ہے۔
اسٹین نے کہا کہ ٹی ٹوئنٹی کرکٹ میں آخری 2 یا 3 اوورز انتہائی اہمیت کے حامل ہوتے ہیں، بعض اوقات اس مرحلے پر ہار اور جیت میں معمولی سا فرق ہوتا ہے، پشاور زلمی کے خلاف میچ میں صرف ایک وکٹ حاصل ہو جاتی تو پانسہ ہمارے حق میں پلٹ جاتا،اس مقابلے میں ہم 40اوورز میں سے 35میں اچھی کرکٹ کھیلے مگر باقی 5میں خراب کارکردگی کی وجہ سے بازی ہاتھ سے نکل گئی، اہم مواقع پر پشاور زلمی نے بڑے حوصلے کا مظاہرہ کیا،ہمارے کپتان سرفراز احمد اور اعظم خان نے شاندار اننگز کھیلی، بولرز نے بھی مجموعی طور پر اچھی بولنگ کی، فیلڈنگ میں بھی بہت کم غلطیاں کیں۔پیسر نے کہا کہ گرس گیل کا خلا پْرکرنے کیلیے موجود کرکٹرز شاید ان جیسے اعدادوشمار نہیں رکھتے، وہ ایک بڑے کرکٹر اور بولرز ان کے سامنے دباؤ میں ہوتے ہیں مگر متبادل پلیئرز کی صلاحیتوں میں بھی کسی شک و شبہے کی گنجائش نہیں، فاف ڈوپلیسی، ٹام بینٹن اور کیمرون ڈیلپورٹ بھی میچز جتوا سکتے ہیں۔
ناسازگار پچز کے باوجود پاکستان فاسٹ بولرز پیدا کرنے والی مشین ہے
ڈیل اسٹین پاکستان کے فاسٹ بولنگ ٹیلنٹ سے بے حد متاثر ہیں،ان کا کہنا ہے کہ کسی لیگ میں پی ایس ایل کے معیار کی فاسٹ بولنگ دیکھنے کو نہیں ملتی،شاہین شاہ آفریدی حیران کن صلاحیتوں کے مالک ہیں،میلبورن اسٹارز میں حارث رؤف کے ساتھ تھا،ان کے ٹیلنٹ سے متاثر ہوا، جلد ہی انھوں نے قومی ٹیم میں جگہ بنالی، حسن علی نے جنوبی افریقہ کیخلاف ٹیسٹ میں شاندار کارکردگی دکھائی،اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ پاکستان فاسٹ بولرز پیدا کرنے والی مشین ہے، عام طور پر پاکستان کی پچز پیسرز کیلیے سازگار نہیں ہوتیں، اس کے باوجود فاسٹ بولنگ کا ٹیلنٹ تسلسل کے ساتھ سامنے آنا حیران کن ہے،ایک فاسٹ بولر ہونے کے ناطے میں پیسرز کو پسند کرتا ہوں، نئے بولرز سامنے آنے پر خوشی محسوس ہوتی ہے۔