اگر لاہور کے کھلاڑیوں کو سیکیور ببل سے نکل کر گھروں سے آنے جانے کی اجازت دے دی جائے تو یہ فیصلہ بھی خطرے سے خالی نہیں ہوگا
تربیتی کیمپ کی بائیو سیکیورٹی پی سی بی کیلیے سخت چیلنج بن گئی، نیشنل کرکٹ اکیڈمی لاہور میں 30 کرکٹرز کو الگ رکھنے کا انتظام نہیں،کورونا فری ماحول یقینی بنانے کے بعد کھلاڑیوں کو گھر آنے جانے کی اجازت دینا خطرے سے خالی نہیں ہوگا،لاک ڈاؤن کی پالیسی میں تبدیلی پر ٹریننگ کے لیے حکومت کو اعتماد میں لینا ہوگا، احتیاطی تدابیر کے پلان کی تیاری جاری ہے، مجوزہ ایس او پیز کے مطابق کرکٹرز اپنے کمروں سے تیار ہو کر آئیں گے۔
ڈریسنگ روم کے بجائے کھلی جگہ پر بیٹھیں گے، سماجی فاصلے کا خیال رکھا جائے گا، ایک دوسرے کا سامان استعمال کرنے کی اجازت نہیں ہوگی۔ تفصیلات کے مطابق انگلینڈ بائیو سیکیور ماحول میں انٹرنیشنل کرکٹ کی بحالی کیلیے کوشاں اور ہر ممکن اقدامات اٹھا رہا ہے، ویسٹ انڈیز نے جولائی اور پاکستان نے اگست میں سیریز کے لیے حامی بھر لی، دونوں ٹیمیں قبل از وقت پہنچ کر قرنطینہ بھی کریں گی،پاکستانی کرکٹرزدورے کے لیے رضا مندی کا اظہار کرچکے ہیں،لاہور میں ٹریننگ کیلیے 30 ممکنہ کھلاڑیوں کو طلب کیا جائے گا۔
ان میں سے 25 یا 27 کو چارٹرڈ طیارے کے ذریعے انگلینڈ روانہ ہونا ہے،3 ٹیسٹ اور اتنے ہی ٹی ٹوئنٹی میچز کے لیے ٹیموں کا انتخاب انہی پلیئرز میں سے ہوگا، میزبان ملک نے میچز کیلیے ایسے وینیوز کا انتخاب کرلیا جہاں ساتھ ہی ہوٹل موجود اور سفر بہت کم ہوگا،البتہ فی الحال پی سی بی کیلیے سب سے پہلا اور بڑا چیلنج اپنے ملک میں ٹریننگ کیلیے آئی سی سی کی گائیڈلائنز کے مطابق بائیو سیکیور ماحول ممکن بنانا ہے، نیشنل کرکٹ اکیڈمی میں تمام تر احتیاطی تدابیر اختیار کرتے ہوئے کھلاڑیوں کے لیے سیف زون قائم ہورہا ہے لیکن یہاں 16 کے قریب کرکٹرز اور 4 آفیشلز کو الگ الگ کمروں میں رہائش فراہم کی جا سکتی ہے،30 کرکٹرزکے قیام کیلیے ایک کمرے میں 2،2 کو رکھنا پڑے گا جو ایس او پیز کی خلاف ورزی ہوگی۔
اگر لاہور کے کھلاڑیوں کو سیکیور ببل سے نکل کر گھروں سے آنے جانے کی اجازت دے دی جائے تو یہ فیصلہ بھی خطرے سے خالی نہیں ہوگا، اصولی طور پر کرکٹرز کو کیمپ شروع ہونے سے دورۂ انگلینڈ مکمل ہونے اور واپسی پر قرنطینہ مکمل ہونے تک گھروں سے دور رہنا اور کسی بھی غیر متعلقہ شخص کے ساتھ رابطے سے گریز کرنا ہے،کھلاڑیوں کو قذافی اسٹیڈیم میں بھی ٹریننگ کرنا ہے،اس وینیو کو بھی ڈس انفیکٹ رکھنے کیلیے خصوصی تدابیر اختیار کرنا ہوں گی، پاکستان میں کورونا کیسز میں تیزی سے اضافہ ہو رہا ہے۔
کھیلوں کی سرگرمیوں کی پہلے ہی اجازت نہیں، لاک ڈاؤن سے متعلق اگر حکومتی پالیسی سخت ہوئی تو کرکٹرز کو استثنیٰ دلانے کیلیے خصوصی اجازت کی ضرورت بھی ہوگی،ان سوالات کے جواب تلاش کرنے کیلیے کوشاں پی سی بی نے ایس او پیز کی تیاری پر کام جاری رکھا ہوا ہے، ڈاکٹر سہیل سلیم مسلسل معاملات کا جائزہ لیتے ہوئے ہیڈ کوچ چیف سلیکٹر مصباح الحق اور چیف ایگزیکٹیو وسیم خان سے مشاورت کر رہے ہیں، ذرائع کا کہنا ہے کہ مجوزہ ایس او پیز کے مطابق ابتدا میں کرکٹرز اور متعلقہ اسٹاف کے کورونا ٹیسٹ اور پھر شروع میں انفرادی ٹریننگ ہوگی۔
کرکٹرز اپنے کمرے سے تیار ہوکر آئیں گے، ڈریسنگ روم میں آنے جانے کے بجائے گراؤنڈ میں کھلی جگہ بیٹھیں گے، ٹریننگ کے دوران سماجی فاصلہ رکھا جائے گا، ہاتھ ملانے اور گلے لگانے سے گریز کیا جائے گا، ایک دوسرے کا سامان استعمال کرنے کی بھی اجازت نہیں ہوگی، وقفے وقفے سے ہینڈ سینٹائزر کا استعمال جاری رکھا جائے گا، ہر کھلاڑی پانی کی الگ بوتل استعمال کرے گا، ٹریننگ سے پہلے اور دوران ٹمپریچر چیک کیا جائے گا، بولرز گیند کو چمکانے کے لیے تھوک کا استعمال ہرگز نہیں کریں گے۔
سپورٹ اسٹاف بھی سوشل ڈسٹنس کا خیال رکھتے ہوئے تمام تر احتیاطی تدابیر اختیار کرے گا، ان کو ماسک اور گلوز پہننے کا پابند بھی کیا جا سکتا ہے، کھلاڑیوں کی خدمت پر مامور عملے کو بھی کم رکھتے ہوئے این سی اے تک محدود کرنے پر غور کیا جارہا ہے، ذرائع کے مطابق ایس او پیز حکومت کو بھی بھجوائے جائیں گے جو لاک ڈاؤن میں نرمی یا سختی فیصلہ پیر کوکرے گی۔